سوچنے کی بات
یہ بات زیادہ پرانی نہیں جب خاندان کے تمام لوگ مل جل کر پیار اور محبت سے رہتے تھے اس دور کے بچے اپنے ماں باپ سے زیادہ وقت دادا دادی یا نانا نانی کے پاس گزارا کرتے تھے گرمی کے موسم میں تپتی دوپہروں میں دادیاں سایہ دار درختوں کے نیچے بچوں کو میٹھی لوریاں سے سلاتی نظر آتی تھیں۔
جبکہ سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں گرم لحافوں میں لپٹے بچے اس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک دادا یا دادی سے کہانی نہیں سن لیتے تھے جس طرح بہت سی برائیاں ہمارے کلچر میں انگریز/مغرب سے آئیں اسی طرح رشتوں کی پہچان نہ ہونا ، بڑوں کے احترام کا نہ ہونا بھی وہیں سے ہمیں تحفے میں ملا آج ہمارے ہاں بھی بچے دادا ابو کی بجائے دادا کو پاپا کے پاپا کہنے لگے ہیں اور آج کے بچے اپنی انگریزی کا روعب اپنے بزرگوں پر جھاڑتے نظر آتے ہیں اور وہ اس بے ادبی پر شرمسار ہونے کی بجائے اس کو ماڈرن رزم کا نام دیتے ہیں اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کوئی ایک شخص نہیں بلکہ ہم بحثیت معاشرہ اس کے ذمہ دار ہیں ہم دولت کمانے کے چکر میں تربیت اولاد کو کہیں بھول چکے ہیں ہم نے بچوں کو رشتوں کی اہمیت سے آگاہ نہیں کیا۔ہم بچوں کو مہنگے سکولوں اور جدید درسگاہوں میں بھیج کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دینی اور دنیاوی لحاظ سے بہتر انسان بنانے کے لیے بچوں کو وقت دیں انھیں اپنے رشتوں کی پہچان کروائیں
لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں کیونکہ بچوں کی اولین درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اس لیے ماؤں کی بہتر تعلیم شاندار معاشرہ بناتی ہے
: سقراط نے کہاتھا
تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دونگا.
نصاب تعلیم میں خاندانی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے مضامین بہت ضروری ہیں ۔
اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن مجید اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسوہ حسنہ بھی موجود ہے
اگر ہم نے ٹوٹتے ہوئے خاندانی نظام کو پر توجہ نہ دی تو ہمارے ہاں بھی طلاق کا رجحان بڑھتا جائے گا اور بچے بوڑھے والدین کو بیوی کی ناراضی کے ڈر سے اولڈ ایج ہوم میں بھیجنا شروع کر دیں گے.جس کا رجحان پچھلے کچھ سالوں میں بہت بڑھ رہا ہے
جس کی اجازت نہ ہمارا مذہب دیتا ہے اور نہ ہی یہ بات ہماری روایات کے مطابق ہے ہمیں آنے والی نسلوں کو اپنی شاندار تاریخ سے روشناس کرانا ہوگا جس میں خاندان کے بزرگوں کا احترام اور بچوں سے پیار و محبت ان کی تعلیم و تربیت کو خصوصی اہمیت حاصل تھی
یہ ایسا معاشرہ تھا جس میں خاندان کے تمام لوگ رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے لیکن آج کا معاملہ الٹ ہوگیا ہے اور
آج کے معاشرے میں صرف رشتوں کو کمزور اور توڑنے کے لئے توانائیاں صرف کی جاتی ہیں۔
اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب اتنے ہوم نہیں ہونگے جتنے اولڈ ایج ہوم ہونگے.
True
ReplyDelete😐
😊
Delete